معاشرے میں انصاف کا نہ ہونا شدید ترین بحرانوں کا سبب بنتا ہے۔ انسانی فطرت کچھ اس طرح سے ہے کہ وہ ہرطرح کی تکلیف اور مصائب سہ جائیں گے مگر ناانصافی کا احساس مشکل سے برداشت کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں مساوات کے فقدان کا احساس نہ صرف بہت شدت سے پاہا جاتا ہے بلک معاشرتی اضطراب اور شدت پسندی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ عدالتی نظام سے عوام الناس کا اعتبار مکمل طور پر اُٹھ چکا ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ عدالتیں غریب اور کمزور طبقات کو انصاف نہیں دیتیں۔ یہ تاثر بھی عام ہے کی انصاف عموما ً خریدنا پڑتا ہے۔ ملک میں مقدس گائیوں کا ایک پورا طبقہ ایسا ہے جو عوام الناس کی رائے میں عدالتی دسترس اور گرفت سے ماورا ء ہے۔ ہم معلومات کی آزاد ترسیل کے عہد میں رہ رہے ہیں۔ یہ بین الاقوامی سماجی حقیقت نہ ختم ہونے والی ہے نہ اس پر وقت کا پہیہ پیچھے مڑنے والا ہے۔ آگہی اور شعور کا سفر آگے ہی بڑھے گا۔ عوام الناس کی حقوق کے بارے میں آراء اور مطالبات کو زیادہ دیر تک نظر انداز کرنا کسی بھی معاشرے کے لیے بالعموم اور اشرافیہ کے لیے بالخصوص نظر انداز کرنا نا صرف خظرناک بلکہ کئی حوالوں سے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عدالتی نظام کی جامع اِصلاح اور معاشرے میں عمومی معاشی اور سماجی انصاف کی فراہمی نا صرف ایک اجتماعی اخلاقی ذمہ داری بن چکی ہے بلکہ ایک امن عامہ اور ریاستی تحفظ کی ضرورت بھی ہے۔ بحریہ ٹاؤن میں پچھلے کچھ روز میں جو کچھ ہوا اور اس سے کچھ عرصہ پہلے تحریک لبیک کے احتجاج کے موقع پر دکھائی دینے والی بے چینی اور غصہ دراصل معاشرے میں پائے جانے والےعمومی ناانصافی کے تصور کے ہی شاخسانے ہیں۔ مزہبی، لسانی اور علاقائی سیاسی شعبدہ باز بہت آسانی سے آے دن اس غصے اور بے چینی کو اپنے اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے حاصل کرتے رہیں گے۔ مسئلے کا جامع اور دیرپا حل معاشرے کو جلد از جلد زیادہ منصفانہ بنانا ہے۔
پاکستان میں محنت کش طبقات کی آزادیوں کی جدوجہد رنگ، نسل،علاقائی ،لسانیۭ مسلکی اور مزہبی تفرقوں سے بالا تر ہوکر کرنی ہوگی ۔ اگر غاصبین اور استحصالی عناصر اپنے مفاد میں یکجا ہیں تو مظلومیں میں تفرقات کا ہونا باعث ملامت ہے ۔ آئیے سب ساتھ مل کر کمزوروں اور لاچاروں کی مدد کریں ۔