ورلڈ بینک, پاکستان میں غربت کے اعداد اور عوامی جدوجہد

پاکستان میں غریبی کی شرح پر ملنے والی معلومات عموماَََ ناکافی اور زیادہ مستند نہیں ہوتیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ معلومات اکٹھی کرنے والے ریاستی, غیر ریاستی اور بین الاقوامی ادارے پاکستانی معاشرے میں موجود غربت کی ثقافت کا صحیح اور جامع احاطہ نہیں کر پاتے ۔ غریبی کے اعداد و شمار کے پیچھے پڑے جبر , ناانصافی اور اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ کو سمجھے اور جانچے بغیر غریبی پرکیا گیا کوئی بھی مکالمہ عموماََ ناخواندہ اور نا مکمل ہی رہتا ہے۔ ورلڈ بینک کا حالیہ انکشاف کہ پاکستان کے 45 فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے رہتے ہیں ایک نامکمل حقیقت ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ غریبی, بھوک,ناخواندگی, ناکارہ صحت کا نظام جیسے انسانی ترقی سے متعلقہ مسائل کبھی بھی خودرو پودوں کی طرح خود بخود پیدا نہیں ہوتے ۔ نا ہی ان کا وجود جادوئی طور پر کسی خلاء میں وجود میں آتا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر انسانی پسماندگی کے پیچھے ریاستی اداروں کی نالائقی و نااہلی, معاشرتی و معاشی جبر واستحصال اور سیاسی دھوکہ دہی اور ناعاقبت اندیشی کی ایک طویل تاریخ ہوتی ہے ۔ غریبی کا سدباب کرنے کے لیے سب سے بڑا اوربنیادی سوال “غریبی کی وجہ” ہے ۔ لوگ کیوں غریب ہیں؟ لوگ اس لیے غریب ہیں کونکہ ان کے ریاستی ادارے نااہل اور نالائق لوگوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ وہ اس لیے غریب ہیں کیونکہ ان کو بروقت اور جامع انصاف میسر نہیں ہے ۔ وہ اس لیے غریب ہیں کیونکہ ان کو جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ میسر نہیں ہے ۔ لوگ اس لیے بھی غریب ہیں کیونکہ ان کی سیاست کی توجہ معاشرے کے سنجیدہ مسائل اور ان کےحل کی بجائے مضحکہ خیز حد تک بیکار اور عوامی ضروریات سے غیر متعلقہ موضوعات کی طرف ہے ۔
جس معاشرے میں ریاستی و سماجی ڈھانچہ اور ثقافت دونوں ہی جرائم, دھوکہ دہی اور فریب کو انعام واکرام دیں اور ایمانداری, محنت اور شرافت کو بیوقوفی اور کوتاہ بینی سمجھ کر پسِ پشت ڈال دیں وہاں پر ہر سماجی, سیاسی اور ثقافتی عمل کا آخری نتیجہ جرائم, بد عنوانی اور غریبی پر ہی نکلے گا ۔ وطن عزیز کے سماجی, سیاسی, ثقافتی اور معاشی بحرانوں کو ان کے درست پیرایوں میں سمجھ کر ہی ان کا حل نکالا جا سکتا ہے ۔ مقامی اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کے اعداد وشمار ہمارے سماجی اور معاشی بحرانوں کے چند زاویے تو اجاگر کر سکتے ہیں لیکن ان کی وجوہات کی جامع تشخیص اور ان کا سد باب عوام الناس سے جڑی, تعلیم یافتہ, ترقی پسند عوامی تحریکیں ہی کر سکتی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر ایسی تحریکیں اُثھنے میں کتنا وقت لگاتی ہیں ؟؟؟

Fawad

I am an activist and an academic

Leave a Reply